By: Perveen Shakir
دائرہ
کسی نے زندگی اور موت کی سرحد کا نقشہ
وقت کے ہاتھوں سے چھینا ہے
کہاں آباد یا ںا معدُوم ہوتی ہیں
کہاں ویرانیاں یک لخت اُگ آتی ہیں
کِس کے علم میں ہو گا
وبا کے خوف سے جب شہرِ میں ہر رنگ کے باشندگانِ اوّلیں
ور آخری گھر کے مکیں تک
بھاگ جائیں
تو بے آواز بے مہکار اور بے لمس گھر
کچھ مر نہیں جاتے
کہیں سے کوئی مکڑی جھانکتی ہے
پھر در و دیوار اپنی ریشمیں تنہائی سے
آباد کرتی ہے
کہیں سے کوئی جھینگر، کوئی مکھی آن پھنستی ہے
بالآخر عنکبوتی کارِ ہستی چل نکلتا ہے
اداسی میں سیاہی رچنے لگتی ہے
تو قرب و دُور سے
چمگادڑیں آتی ہیں
اور گرتی چھتوں کو تھام لیتی ہیں
کبوتر منہ میں دابے کوئی بلی
اوراُس کو سونگھتا کتا
کوئی سہما ہوا خرگوش
اورخرگوش کے پیچھے لپکتا بھیڑیا
اور بھیڑیے کی پُشت پر ایک شیر
اورپھر شیر کے پیچھے کوئی پیاسا شکاری
رائفل کی نال اورکھڑکی کے جالے صاف کرتے کرتے
آنے والی آخری راتوں کی خاطر
موم بتّی چھوڑ جاتا ہے
یہ مدھم روشنی
اگلے مسافر کے سفر تک
اور پھر
اگلے مسافر کے ٹھہر جانے چلے جانے تک
آباد رہتی ہے
یہاں تک کہ
کہیں سے کوئی مکڑی جھانکتی ہے
Install Bazm-e-Urdu now to search through over 50000+ Urdu Poems and share as text or customized images. More than 1000+ images to choose from. So what are you waiting for?