By: Muhammad Siddique Prihar
دشت کربلا میں اپنے خیمے لگا دیئے ہیں
ہوش یزیدیوں کے پل میں اڑا دیئے ہیں
قوت استقامت سے کوہ ستم گرا دیئے ہیں
سید نے کربلا میں وعدے نبھا دئے ہیں
دین محمدی کے گلشن کھلا دیئے ہیں
سن کر مظالم سکتے میں ہے عقل انسانی
دشمن حسین کیلئے تھی ہر چیز کی فراوانی
دیکھ کر جسے یاد آتے ہیں محبوب سبحانی
دین نبی پہ واری اکبر نے بھی جوانی
عباس نے بھی اپنے بازو کٹا دیئے ہیں
نہ رکے نہ تھمے چاہے جبر کے سلسلے
برستے تیروں میں شبیر کے حوصلے بلند رہے
تیر پھینکا اعداءنے معصوم اصغر واسطے
اک بچ گیا تھا غنچہ اس کو بھی پیش کرکے
سید نے جھاڑ کے یوں دامن پھیلا دیئے ہیں
بوقت روانگی ساتھ چلنے کو التجائیں پسارتی تھی
جلاکر چراغ روضے پر فرض اتارتی تھی
بھائی کے انتظار میں دن اپنے گزارتی تھی
منہ کرکے سوئے کوفہ صغرای پکارتی تھی
کیا تو نے سارے اکبر وعدے بھلا دیئے ہیں
تھے زمین کربلا کے ذرے حدت سے دہکتے
آل نبی سے محبت کرنے والے کبھی نہیں بہکتے
یاد و ذکر میں ان کے رہتے ہیں پرندے چہکتے
زینب کے باغ میں جو دوپھول تھے مہکتے
زینب نے وہ بھی دونوں راہ خدا دئیے ہیں
اپنی موت آپ مر گئے یزید شمر کے نخرے
کیا جانیں عظمت اس گھرانے کی بے قدرے
ختم کئے ابن حیدر نے اسلام کو خطرے
تنویر حیدری نے دے دے کے لہو کے قطرے
کرب و بلا کے ذرے ہیرے بنا دئیے ہیں
کوئی کمی نہیں تھی سفاک کے ستم میں حافظ
سکھا گئے صدیق صبر کرنا رنج و الم میں حافظ
لازوال استقامت حسین کے قدم میں حافظ
بخشش ہے اس کی لازم سید کے غم میں حافظ
دو چار آنسو جس نے رو کر بہا دیئے ہیں
Install Bazm-e-Urdu now to search through over 50000+ Urdu Poems and share as text or customized images. More than 1000+ images to choose from. So what are you waiting for?