By: وشمہ خان وشمہ
بس یہی بات یہاں حرف عنایت سے ملے
میں نے دریا کی نہیں دشت حفاظت سے ملے
ہم تو موجوں سے لڑے اور کنارے پہنچے
ہم نے کب ڈوبتی کشتی کی حمایت سے ملے
ورنہ کیا ہم کو غرض حال تمہارا پوچھیں
بات یہ کچھ بھی نہیں صرف محبت سے ملے
ابھی دالان میں اترے نہیں شب کے سائے
جانے والے نے سنا ہے کہ بغاوت سے ملے
لاکھ موجیں ہوں مخالف کہ ہوا ہو ناراض
پار اس بار بھی دریا کسی صورت سے ملے
میرے ہونٹوں پہ خموشی کے پڑے ہیں تالے
میری آنکھوں نے مری آج بھی چاہت سے ملے
اب اسے ڈھونڈنے نکلی ہیں کہ وشمہ یادیں
جس نے کاغذ کے لباسوں کی تجارت سے ملے
Install Bazm-e-Urdu now to search through over 50000+ Urdu Poems and share as text or customized images. More than 1000+ images to choose from. So what are you waiting for?