By: رشید حسرت
حقِیر جانتا ہے، اِفتخار مانگتا ہے
وہ زہر بانٹتا ہے اور پیار مانگتا ہے
ذلِیل کر کے رکھا اُس کو، اُس کی بِیوی نے
(ابھی دُعا میں) مِعادی بُخار مانگتا ہے
ابھی تو ہاتھ میں اُس کے ہے خاندان کی لاج
گریباں سب کے جو اب تار تار مانگتا ہے
بِچھا کے رکھتا ہے وہ سب کی راہ میں کانٹے
صِلے میں لوگوں سے پُھولوں کے ہار مانگتا ہے
میں اپنے وعدے پہ قرضہ چُکا نہِیں پایا
مُعافی دِل سے ابھی شرمسار مانگتا ہے
حواس جب سے مِلے تب سے اِضطراب میں ہُوں
مِرے خُدا، مِرا دِل بھی قرار مانگتا ہے
امیرِ شہر نے چِھینا ہے مُنہ کا لُقمہ بھی
پِھر اُس پہ قہر ابھی اعتبار مانگتا ہے
ابھی یہ اہلِ سِیاست کے بس کا روگ نہِیں
ابھی یہ مُلک نیا شہسوار مانگتا ہے
بجا کے طائرِ چشمِ حسین ہے مشّاق
دل و نظر کا مگر یہ شکار چاہتا ہے
میں دیکھتا ہوں کہ زلفیں تری سنوارتا ہوں
ہے خواب اچّھا مگر انتظار مانگتا ہے
رشِیدؔ اُن پہ مِرا نغمہ کارگر ہی نہِیں
یہ گیت وہ ہے کہ جو دِل کے تار مانگتا ہے
Install Bazm-e-Urdu now to search through over 50000+ Urdu Poems and share as text or customized images. More than 1000+ images to choose from. So what are you waiting for?