By: muhammad nawaz
دل بتا زیر دام کیسے ہوا
یہ تو وحشی تھا رام کیسے ہوا
کل تلک زندگی پہ لٹو تھے
آج جینا حرام کیسے ہوا
عکس دیکھا ترا تو بھید کھلا
آئینہ تشنہ کام کیسے ہوا
ہم تو پابند تھے مداروں کے
فاصلہ چند گام کیسے ہوا
تیرے ہاتھوں پہ سبھی لکھا ہے
کام میرا تمام کیسے ہوا
آج بدلے ہوئے سے تیور ہیں
مینڈکی کو زکام کیسے ہوا
ہم تو چاہا کئے تھے تنہائی
ہر طرف اژدھام کیسے ہوا
نفرتوں کی بھلا بلا جانے
الفتوں کو دوام کیسے ہوا
چاند دیکھا تو بدحواسی میں
مڑتے مڑتے سلام کیسے ہوا
دل پہ زنجیر پڑ گئی کیسے
مستقل یہ غلام کیسے ہوا
حسن نے پھر کوئی دیا چکمہ
زخم یہ تیرے نام کیسے ہوا
جان جوکھوں میں ڈال کر جانو
میری قسمت میں جام کیسے ہوا
پاؤں میں بیڑیاں تھی خوابوں کے
رقص کا اہتمام کیسے ہوا
جو کھڑے تھے کئے ہوائی قلعے
انکا یہ انہدام کیسے ہوا
جس پہ اب تک نہ لب کشائی ہوئی
حرف وہ حرف عام کیسے ہوا
عادل رشید کی محاورہ غزل کے تجربے سے متاثر ہو کر لکھی ہے یہ غزل اور اسکے ہر شعر میں روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والے عام محاوروں کو استعمال کیا ہے۔۔۔ضرورت شعری کے لحاظ سے کہیں کہیں رعائت لفظی کا سہارا لیا ہے۔۔جو محاورے استعمال ہوئے ہیں انکی ترتیب یوں ہے۔۔۔۔۔۔ زیر دام ہونا،رام ہونا،لٹو ہونا،جینا حرام کرنا،تشنہ کام ہونا،چند گام ہونا،کام تمام ہونا،بدلے ہوئے تیور ہونا،مینڈکی کو زکام ہونا،اژدھام ہونا،دوام ہونا،بدحواس ہونا،زنجیر پڑنا،چکمہ دینا،جان جوکھوں میں ڈالنا،پاؤں میں بیڑیاں ہونا،ہوائی قلعے تعمیر کرنا، لب کشائی کرنا، انشااللہ جلد اور محاورے اور ضرب الامثال کے ساتھ مزید کوشش کروں گا کہ آپ لوگوں سے شئیر کر سکوں۔۔۔والسلام
Install Bazm-e-Urdu now to search through over 50000+ Urdu Poems and share as text or customized images. More than 1000+ images to choose from. So what are you waiting for?