By: MOHSIN NAQVI
میں کہ قسمت کی لکیریں بھی پڑھا کرتا تھا
کوئی آیا ہی نہیں ہاتھ دکھانے کب سے
نعمتیں ہیں نہ عذابوں کا تسلسل اب تو!
مجھ سے رُخ پھیر لیا میرے خدا نے کب سے
جان چھٹرکتے تھے کبھی خود سے غزالاں جن پر
بھول بیٹھے ہیں شکاری وہ نشانے کب سے
وہ تو جنگل سے ہواؤں کو چُرا لاتا تھا
اُس نے سیکھے ہیں دیے گھر میں جلانے کب سے؟
شہر میں پرورشِرسمِ جنوں کون کرے؟
یوں بھی جنگل میں یاروں کے ٹھکانے کب سے؟
آنکھ رونے کو ترستی ہے تو دل زخموں کو
کوئی آیا ہی نہیں احسان جتانے کب سے
جن کے صدقے میں بسا کرتے تھے اُجڑے ہوئے لوگ
لُٹ گئے ہیں سرِ صحرا وہ گھرانے کب سے
لوگ بے خوف گریباں کو کُھلا رکھتے ہیں
تِیر چھوڑا ہی نہیں دستِ قضا نے کب سے
جانے کب ٹوٹ کے برسے گی ملامت کی گھٹا؟
سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں دِوانے کب سے
جن کو آتا تھا کبھی حشر جگانا محسؔن
بختِ خفتہ کو نہ آئے وہ جگانے کب سے
Install Bazm-e-Urdu now to search through over 50000+ Urdu Poems and share as text or customized images. More than 1000+ images to choose from. So what are you waiting for?