By: ارسلان حُسینؔ
شہرِ مرتَب
سُناؤ لوری ، ایسی کوئی
کہ نیند آئے
بُجھا دو جلتی لَو کی شمع
کہ مجھ کو میرا عکس نہ بھائے
ساز چھیڑوں پُرانے دن کے
کہ لب پھر سے مسکرائیں
قفسِ وحشت کا زور ٹُوٹے
کوئ منائے کوئ تو رُوٹھے
کہ حال آ کر کوئی تو پُوچھے
بُلاؤ آنگن پہ آج قمر کو
جسکی چاندنی تاریکی لُوٹیں
ہَوا سے کہہ دو مجھ کو چھُو کر
شہر اُسکے لَوٹ جائیں
نہ دل دُکھائیں
عہد یہی ہے نہ پھر مِلینگے
چاہے جتنا بھی یاد آئیں
بتاؤ مجھ کو شہرِ مرتَب؟
اُداس آنکھوں سے کیا کہوں میں؟
کہ اشک روکیں یہ پھر بَھائیں؟
اپنی خواہش کا خون کر کے
کسی کی خاطر جشن منائیں؟
جو جان چھُوٹے بے چین دل سے
تو کیوں نہ مجھ کو موت آئے
شہرِ مرتَب
سناؤ لوری ، ایسی کوئ
کہ درد اُبھرے
سانس اُکھڑے
جسم کی قید سے روح نِکلے
کچھ نہ بولیں بس سُنتے جائیں
ایسی گہری نیند آئے
!کہ ہم بھی آخر سکُون پائیں
Install Bazm-e-Urdu now to search through over 50000+ Urdu Poems and share as text or customized images. More than 1000+ images to choose from. So what are you waiting for?