By: Dr.Zahid Sheikh
یہ سوچتا ہوں میں تنہائیوں کی محفل میں
دیا ہے آج تلک شاعری نے کیا مجھ کو
لہو کی بوندوں سے لکھتا ہوں گیت اور غزلیں
مگر یہ خوں مرے کچھ بھی نہ کام آیا ہے
مرے تو شعروں کی اتنی بھی نہ لگی قیمت
کہ جس سے پیٹ کے دوزخ کو میں بجھا لیتا
سماج سے مجھے عزت بھی نہ ملی ان سے
یہ گیت اور یہ غزلیں مرے لیے کیا ہیں
میں ساری باتوں سے سمجھوتہ کر بھی سکتا تھا
جو میرے شعروں سے آ جاتا انقلاب کوئی
مرے سماج کی رسمیں اگر بدل جاتیں
مرے وطن کا جو چہرہ کبھی سنور جاتا
یہ مشغلہ بھی تو رسوائی کا سبب ہے یہاں
منافقت ہے ، جہالت ہے جس طرف دیکھو
ہر ایک بات کو پیسے سے تولا جاتا ہے
تو ایسے میں بھلا شعروں کی قدر کون کرے
بتاؤں کس کو کہ شاعر ہوں شعر کہتا ہوں
مزاق اپنا بنانا نہیں گوارا مجھے
بس ایک آگ جو سینے میں جلتی رہتی ہے
اسے بجھانے کی خاطر میں شعر کہتا ہوں
یہ شاعری تو ہے دل کے سکون کی خاطر
“ وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے “
ملا تھا زیست میں کیا شاعری سے غالب کو
ملے گا مجھ کو بھی کیا اس سے جانتا ہوں میں
یہ سوچتا ہوں میں تنہائیوں کی محفل میں
دیا ہے آج تلک شاعری نے کیا مجھ کو
لہو کی بوندوں سے لکھتا ہوں گیت اور غزلیں
مگر یہ خوں مرے کچھ بھی نہ کام آیا ہے
Install Bazm-e-Urdu now to search through over 50000+ Urdu Poems and share as text or customized images. More than 1000+ images to choose from. So what are you waiting for?